علم کے افق پر جو چاند ستارے ہیں
اور کوئی نہیں وہ بھالو ہی تو سارے ہیں
بے جوڑ جسامت سے دھتکاروں نہ ان کو
یہ پہلے ہی جنگل کی نفرت کے مارے ہیں
پڑھ پڑھ کر ان کا اعلی دماغ ہوگیا
ایک تیز ہوا ہے اور جھولی میں شرارے ہیں
علم و ادب نے ان کو مہذب ہے کر دیا
نالی کے پانی سے کرتے یہ غرارے ہیں
تعلیم کو تو یہ سمجھتے ہیں سمندر ایسا
ایک پاؤں پانی میں ہے، دوجے پہ کنارے ہیں
شرم و حیا کے پیکر، ایسے تو ہے یہ جوکر
لنگوٹ لگا کر میدان میں نہارے ہیں
تعلیم کی عمارت ایسی ہے ان کی پختہ
ٹین کا ہے چھپر، ہر در میں درارے ہیں
طالب کے ساتھ ان کی دوستی ہے ایسی
آئی کوئی آفت تو اسکو ہی پکارے ہیں