بھر جائیں گے جب زخم تو آؤں گا دوبارا
Poet: Sarvat Husain By: jabeen, khi
بھر جائیں گے جب زخم تو آؤں گا دوبارا
میں ہار گیا جنگ مگر دل نہیں ہارا
روشن ہے مری عمر کے تاریک چمن میں
اس کنج ملاقات میں جو وقت گزارا
اپنے لیے تجویز کی شمشیر برہنہ
اور اس کے لیے شاخ سے اک پھول اتارا
کچھ سیکھ لو لفظوں کو برتنے کا سلیقہ
اس شغل میں گزرا ہے بہت وقت ہمارا
لب کھولے پری زاد نے آہستہ سے ثروتؔ
جوں گفتگو کرتا ہے ستارے سے ستارا
More Sarvat Husain Poetry
جب شام ہوئی میں نے قدم گھر سے نکال جب شام ہوئی میں نے قدم گھر سے نکالا
ڈوبا ہوا خورشید سمندر سے نکالا
ہر چند کہ اس رہ میں تہی دست رہے ہم
سودائے محبت نہ مگر سر سے نکالا
جب چاند نمودار ہوا دور افق پر
ہم نے بھی پری زاد کو پتھر سے نکالا
دہکا تھا چمن اور دم صبح کسی نے
اک اور ہی مفہوم گل تر سے نکالا
اس مرد شفق فام نے اک اسم پڑھا اور
شہزادی کو دیوار کے اندر سے نکالا
ڈوبا ہوا خورشید سمندر سے نکالا
ہر چند کہ اس رہ میں تہی دست رہے ہم
سودائے محبت نہ مگر سر سے نکالا
جب چاند نمودار ہوا دور افق پر
ہم نے بھی پری زاد کو پتھر سے نکالا
دہکا تھا چمن اور دم صبح کسی نے
اک اور ہی مفہوم گل تر سے نکالا
اس مرد شفق فام نے اک اسم پڑھا اور
شہزادی کو دیوار کے اندر سے نکالا
midhat
بھر جائیں گے جب زخم تو آؤں گا دوبارا بھر جائیں گے جب زخم تو آؤں گا دوبارا
میں ہار گیا جنگ مگر دل نہیں ہارا
روشن ہے مری عمر کے تاریک چمن میں
اس کنج ملاقات میں جو وقت گزارا
اپنے لیے تجویز کی شمشیر برہنہ
اور اس کے لیے شاخ سے اک پھول اتارا
کچھ سیکھ لو لفظوں کو برتنے کا سلیقہ
اس شغل میں گزرا ہے بہت وقت ہمارا
لب کھولے پری زاد نے آہستہ سے ثروتؔ
جوں گفتگو کرتا ہے ستارے سے ستارا
میں ہار گیا جنگ مگر دل نہیں ہارا
روشن ہے مری عمر کے تاریک چمن میں
اس کنج ملاقات میں جو وقت گزارا
اپنے لیے تجویز کی شمشیر برہنہ
اور اس کے لیے شاخ سے اک پھول اتارا
کچھ سیکھ لو لفظوں کو برتنے کا سلیقہ
اس شغل میں گزرا ہے بہت وقت ہمارا
لب کھولے پری زاد نے آہستہ سے ثروتؔ
جوں گفتگو کرتا ہے ستارے سے ستارا
jabeen
اک روز میں بھی باغ عدن کو نکل گیا اک روز میں بھی باغ عدن کو نکل گیا
توڑی جو شاخ رنگ فشاں ہاتھ جل گیا
دیوار و سقف و بام نئے لگ رہے ہیں سب
یہ شہر چند روز میں کتنا بدل گیا
میں سو رہا تھا اور مری خواب گاہ میں
اک اژدہا چراغ کی لو کو نگل گیا
بچپن کی نیند ٹوٹ گئی اس کی چاپ سے
میرے لبوں سے نغمۂ صبح ازل گیا
تنہائی کے الاؤ سے روشن ہوا مکاں
ثروتؔ جو دل کا درد تھا نغموں میں ڈھل گیا
توڑی جو شاخ رنگ فشاں ہاتھ جل گیا
دیوار و سقف و بام نئے لگ رہے ہیں سب
یہ شہر چند روز میں کتنا بدل گیا
میں سو رہا تھا اور مری خواب گاہ میں
اک اژدہا چراغ کی لو کو نگل گیا
بچپن کی نیند ٹوٹ گئی اس کی چاپ سے
میرے لبوں سے نغمۂ صبح ازل گیا
تنہائی کے الاؤ سے روشن ہوا مکاں
ثروتؔ جو دل کا درد تھا نغموں میں ڈھل گیا
usman






