بھری محفل میں وہ تنہا رہا ہے
کہ جس دل کو تِرا سودا رہا ہے
کِیا ہے جس نے مذہب عشق اپنا
زمانے بھر میں وہ رُسوا رہا ہے
ثنا خوانوں کی سازش ہے یقینا
بُرا ہر دور میں اچھا رہا ہے
لکیریں ہاتھ کی وِیران ہیں اب
کبھی اِن میں تِرا چہرہ رہا ہے
حقیقت جانتا ہے ہر بَلا کی
مصیبت میں بھی جو ہنستا رہا ہے
سبھی کردار سہمے پھر رہے ہیں
نہ جانے موڑ کیسا آ رہا ہے
بجھے گی پیاس اِک دن، اِس ہوس پر
لبِ ساحل لبِ دریا رہا ہے
وفا کے گیت گاتا حُسن صاحب
یونہی دل آپ کا بہلا رہا ہے