بھلا دیتا سبھی ہے غم مرے تو پیر کا چہرہ
تجلیات کا مظہر ہے تری دستار کا چہرہ
شرافت ٹپکتی ہے پھول کے جیسے ہی چہرے سے
عنایت ہی عنایت ہے مرے غم خار کا چہرہ
محبت میں صداقت ہو عداوت ہو نہیں سکتی
جب یہ نظرِ کرم ہو تب کھلے بیمار کا چہرہ
مرے مرشد کے جیسا تو نہیں کوئی زمانے میں
جدھر جاؤں نظر آتا ہے بس سرکار کا چہرہ
نہیں بدلے کبھی تیور نزاکت میں شرافت ہے
نہیں ہوتا ہے ایسے تو کسی فنکار کا چہرہ
ولی کامل ہے مرشد تو مرا دیکھو ذرا آ کر
ابھی روشن ہے شفقت سے مرے حب دار کا چہرہ
میں نازاں ہوں کروں گا ناز کامل ہے یقیں میرا
نظر کے سامنے رہتا ہے مرے تو یار کا چہرہ