ہوائیں مسکرائی ہیں نظاروں پربہار آئی
فضائیں جھوم اٹھیں اور بہاروں پر بہار آئی
فلک پہ حوریان خلد کی آواز پھیلی ہے
نگاہوں کو بچھا رکھو ستاروں پر بہار آئی
ترے حسن مجسم کی فقط اک جھلک دیکھی ہے
سمندر سیپیاں اگلے کناروں پر بہار آئی
تمہاری ذات سے اٹھی کرشمہ ساز کرنوں سے
جہاں کے ریگزاروں خارزاروں پر بہار آئی
ترے دست کرم کے معجزانہ لمس سے آقا
لاچاروں پربہار آئی بیماروں پر بہار آئی
بڑی تاریک راہیں تھیں بڑے ویران رستے تھے
ترے آنے سے سارے بے سہاروں پربہار آئی
ترے نعلین چھونے کو فلک پر کہکشاں بکھری
ازل سے بھٹکے ہوئے چاند تاروں پر بہار آئی
تمہارے ذکرسے آقا معطر ہو گئی سانسیں
مرے الفاظ میرے استعاروں پر بہار آئی