بہاریہ
Poet: Khalid Roomi By: Khalid Roomi, Rawalpindiسرور ہے فضاؤں میں ، وہ سرمدی خمار ہے
مٹی ہیں لن ترانیاں ، یقیں کا بیڑہ پار ہے
چمک دمک نئی نئی، افق افق ہے روشنی
ہے شادماں کلی کلی کہ صبح نور بار ہے
ہیں شاد اہل گلستاں، نئی ہے رت، نیا سماں
ہر ایک برگ سے عیاں جمال لالہ زار ہے
مسرتوں کے زمزمے، یہ نکہتوں کے سلسلے
سجے سجے ہیں راستے، چہک ہے اور پکار ہے
یہ رنگ و روپ کا نشاں، یہ گلستاں کے درمیاں
جو آبشاریں ہیں رواں، سماں یہ پر بہار ہے
جدھر جدھر کو ہم گئے، ادھر کو جا تھم گئے
کہاں وہ پیچ و خم گئے، یہ کونسا دیار ہے؟
خوشی کی لہر دوڑ اٹھی، حصار غم کو توڑ اٹھی
ستم کی آنکھ پھوڑ اٹھی، عطائے کردگار ہے
ہے تازگی گلاب میں، سحر بھی ہے شباب میں
جواں ہے رت، ہری بھری ہر ایک شاخسار ہے
وفا پرست آج بھی، ہیں سرخرو خوشی خوشی
ہوس ہے یوں بجھی بجھی، عدو کو جوں بخار ہے
جمال بادہ دلربا، ہوئی نشے سے پر فضا
نظر نظر میں ہے نشہ، قدم قدم خمار ہے
کھلے ہیں گل ورق ورق، ہیں لالیاں شفق شفق
شباب ہے افق افق، افق افق بہار ہے
یہ روشنی ، یہ قمقمے، یہ چہچہے، یہ قہقہے
یہ نغمگی، یہ زمزمے، روش روش نکھار ہے
شجر شجر ہے زر بکف، ہے ڈالیوں میں صف بصف
نظر نظر میں ہر طرف، جمال صد ہزار ہے
یہ خواب اور خیال کیا، لبوں پہ یہ سوال کیا
گماں کا ہے ملال کیا، فضا تو خوشگوار ہے
کلی کلی ہوئی جواں، ہے رنگ و نور کا سماں
یہی چمن کی داستاں، اسی کا اعتبار ہے
دھلی ہیں سب کثافتیں، کھلی کھلی لطافتیں
چمن کی یہ ضیافتیں، انھی پہ دل نثار ہے
خزاں کسے ہے یاد اب، خزاں کی بات بے سبب
بہار ہے عطائے رب، عطائے رب بہار ہے
امنگ بھی ترنگ بھی، ادھر وہ شوخ و شنگ بھی
ادھر رباب و چنگ بھی، لبوں پہ اک پکار ہے
فلک بھی ایک جست تھا کہ ہیچ اوج و پست تھا
یہ دل جو مے پرست تھا، نثار حسن یار ہے
یہ چاندنی کی جستجو، یہ بارشوں کی گفتگو
یہ قمریوں کی ہاؤ ہو، اسی سے افتخار ہے
جو سرخ رنگ پھول ہیں، تو زرد رو ببول ہیں
وفاؤں کے اصول ہیں، جفا تو شرمسار ہے
روش روش، چمن چمن، طرح طرح کے بانکپن
یہ یاسمیں، وہ نسترن، عروس لالہ زار ہے
نشاط کے سراغ ہیں، جو مے سے پر ایاغ ہیں
لو، تازہ تر دماغ ہیں کہ باغ میں بہار ہے
ملی گلوں کے درمیاں ، عجیب سبزہ زاریاں
پڑی ہوئی یہاں وہاں، وہ شبنمی پھوار ہے
وہ قمریاں، یہ بلبلیں ، یہ سر اٹھاتی کونپلیں
چمن میں سب یہ غل کریں، بہار ہے بہار ہے
اسی سے ہے سجا ہوا، ہے دل سے دل ملا ہوا
اسی پہ دل فدا ہوا، اسی پہ جانثار ہے
خدا کی مہربانیاں، بہار کی نشانیاں
گلوں میں شادمانیاں، ملول خار خار ہے
رہا نہ کوئی تشنہ لب، نئی ادا، نئے ہیں ڈھب
خزاں کے سر پہ وار اب بنام ذوالفقار ہے
ہوا میں نغمہ زا چہک، فضا میں ہے نئی مہک
ہے ڈالیوں میں اک لہک، یہ کیسا کاروبار ہے ؟
پیو ہر ایک جام سے، نگاہ بادہ فام سے
پھرو نہ تشنہ کام “سے“، شراب فیض بار ہے
ہے آئنہ صفات کا، لہو، گل حیات کا
جمال و کائنات کا ، جو ربط استوار ہے
یہی ہیں اصل ساعتیں، کرم کی ہیں روایتیں
ورق ورق پہ آیتیں، انھی پہ انحصار ہے
فلک پہ قوس و قزح کا، زمیں پہ جام و قدح کا
نئی نئی ہی طرح کا، فسون چشم یار ہے
فسردہ ہے ایاز کیوں؟ کھلا نہیں ہے راز کیوں؟
یہ ناز کیوں؟ نیاز کیوں؟ کوئی تو پردہ دار ہے
یہ فصل گل، یہ عکس مل، پیام لطف ذات کل
بپا ہے چار سمت غل، چمن میں پھر بہار ہے
گلوںمیں رنگ دیکھ کر، مٹے ہیں غم ، رہا نہ ڈر
ہوا ہے شاد ہر بشر، طلسم لالہ زار ہے
نہ در بدر جبیں دھریں، خزاں کی بات کیوں کریں؟
یہی ہے قول رومی ! سچ ، بہار پھر بہار ہے
تذکرہ اجداد کا ہے نا گزیر
بھُول سکتا ہوں نوشہرہ کس طرح
جس کی مِٹّی سے اُٹھا میرا خمیر
پکّی اینٹوں سے بنی گلیوں کی شان
آج تک ہوں اسکی یادوں کا اسیر
دُور دُور تک لہلہاتے کھیت تھے
آہ وہ نظّارہ ہائے دلپذیر
میرے گھر کا نقشہ تھا کچھ اس طرح
چند کمرے صحن میں منظر پذیر
صحن میں بیت الخلا تھی اک طرف
اور اک برآمدہ بیٹھک نظیر
صحن میں آرام کُرسی بھی تھی ایک
بیٹھتے تھے جس پہ مجلس کے امیر
پیڑ تھا بیری کا بھی اک وسط میں
چار پائیوں کا بھی تھا جمِّ غفیر
حُقّے کی نَے پر ہزاروں تبصرے
بے نوا و دلربا میر و وزیر
گھومتا رہتا بچارا بے زباں
ایک حُقّہ اور سب برناؤ پیر
اس طرف ہمسائے میں ماسی چراغ
جبکہ ان کی پشت پہ ماسی وزیر
سامنے والا مکاں پھپھو کا تھا
جن کے گھر منسوب تھیں آپا نذیر
چند قدموں پر عظیم اور حفیظ تھے
دونوں بھائی با وقار و با ضمیر
شان سے رہتے تھے سارے رشتے دار
لٹکا رہتا تھا کماں کے ساتھ تیر
ایک دوجے کے لئے دیتے تھے جان
سارے شیر و شکر تھے سب با ضمیر
ریل پیل دولت کی تھی گاؤں میں خوب
تھوڑے گھر مزدور تھے باقی امیر
کھا گئی اس کو کسی حاسد کی آنکھ
ہو گیا میرا نوشہرہ لیر و لیر
چھوڑنے آئے تھے قبرستان تک
رو رہے تھے سب حقیر و بے نظیر
مَیں مرا بھائی مری ہمشیرہ اور
ابّا جی مرحوم اور رخشِ صغیر
کاش آ جائے کسی کو اب بھی رحم
کر دے پھر آباد میرا کاشمیر
آ گیا جب وقت کا کیدو امید
ہو گئے منظر سے غائب رانجھا ہیر
Mesmerized by raindrops falling outside
The soothing melody of the rain enhances the festive ambiance
Reminding me of what's missing—you
Our Christmas tree's fragrance fills the air
Flooding my mind with memories of our laughter and dialogue
The twinkling tree, adorned with memories of our past
Now serves as a poignant reminder of our missed joy
The Christmas bells' melody seems muted without you
Lacking the harmony only you can bring
Even the fireplace's warmth feels cold without your loving presence
I recall snuggling up together, watching flames dance
And sharing dreams
Santa's gifts pale compared to your presence
Let's celebrate our love this Christmas
Decorate the tree together, exchange gifts
And cherish every moment in each other's arms
Without you, everything feels hollow
With you, my heart aglow
Merry Christmas, my love, wherever you are
You're forever loved and glowing in my heart
Woven with tolerance and acceptance, life's every structure
My heart beats with humanism's gentle rhyme
Nourished by Sufism's spiritual essence, sublime
Like a garden of diverse flowers, I strive to grow
Respect and dignity for all, as my heart's deepest glow
Compassion and empathy's fragrance wafts through my soul
Promoting humanity and understanding, my heart's goal
Respect for all faiths and religions, a harmony so true
Guides my relationships, and shines bright, in all I do
As a guardian of our rich cultural heritage, I stand tall
Protecting and preserving our treasures, for one and all
Our culture's a precious tapestry, woven with love and care
Threads of tradition, values, and customs, forever we'll share
In my heart's silence, I hear my ancestors' gentle voice
Guiding me to stay true, to tolerance, acceptance, and compassion's choice
May my life be a testament, to Sindhi culture's beauty rare
Inspiring others to join me, on this journey we'll share
مری شان مری آن میرا وطن ہے
رہے گی زمانے میں توقیر ہردم
بنا میری پہچان میرا وطن ہے
کرونگا فدا جان جب وقت آیا
مرا دین ایمان میرا وطن ہے
ہلالی یہ لہراتا پرچم رہے گا
یہ سر سبز میدان میرا وطن ہے
یہاں پر میں آزاد ہوں شاد بھی ہوں
یہی ہے مری شان میرا وطن ہے
بہادر ہیں میرے وطن کے محافظ
مرا ہے نگہبان میرا وطن ہے
تلاوت سے آغاز ہوتا ہے دن کا
ہے سینے میں قرآن میرا وطن ہے
میں نازاں ہوں ہے ناز اپنے وطن پر
اسی سے ہے ذیشان میرا وطن ہے
خلوص و محبت سے لبریز ہیں سب
مرے دل کا درمان میرا وطن ہے
ملی ہیں زمانے کی شہزاد خوشیاں
نہیں کوئی ارمان میرا وطن ہے






