سرور ہے فضاؤں میں ، وہ سرمدی خمار ہے
مٹی ہیں لن ترانیاں ، یقیں کا بیڑہ پار ہے
چمک دمک نئی نئی، افق افق ہے روشنی
ہے شادماں کلی کلی کہ صبح نور بار ہے
ہیں شاد اہل گلستاں، نئی ہے رت، نیا سماں
ہر ایک برگ سے عیاں جمال لالہ زار ہے
مسرتوں کے زمزمے، یہ نکہتوں کے سلسلے
سجے سجے ہیں راستے، چہک ہے اور پکار ہے
یہ رنگ و روپ کا نشاں، یہ گلستاں کے درمیاں
جو آبشاریں ہیں رواں، سماں یہ پر بہار ہے
جدھر جدھر کو ہم گئے، ادھر کو جا تھم گئے
کہاں وہ پیچ و خم گئے، یہ کونسا دیار ہے؟
خوشی کی لہر دوڑ اٹھی، حصار غم کو توڑ اٹھی
ستم کی آنکھ پھوڑ اٹھی، عطائے کردگار ہے
ہے تازگی گلاب میں، سحر بھی ہے شباب میں
جواں ہے رت، ہری بھری ہر ایک شاخسار ہے
وفا پرست آج بھی، ہیں سرخرو خوشی خوشی
ہوس ہے یوں بجھی بجھی، عدو کو جوں بخار ہے
جمال بادہ دلربا، ہوئی نشے سے پر فضا
نظر نظر میں ہے نشہ، قدم قدم خمار ہے
کھلے ہیں گل ورق ورق، ہیں لالیاں شفق شفق
شباب ہے افق افق، افق افق بہار ہے
یہ روشنی ، یہ قمقمے، یہ چہچہے، یہ قہقہے
یہ نغمگی، یہ زمزمے، روش روش نکھار ہے
شجر شجر ہے زر بکف، ہے ڈالیوں میں صف بصف
نظر نظر میں ہر طرف، جمال صد ہزار ہے
یہ خواب اور خیال کیا، لبوں پہ یہ سوال کیا
گماں کا ہے ملال کیا، فضا تو خوشگوار ہے
کلی کلی ہوئی جواں، ہے رنگ و نور کا سماں
یہی چمن کی داستاں، اسی کا اعتبار ہے
دھلی ہیں سب کثافتیں، کھلی کھلی لطافتیں
چمن کی یہ ضیافتیں، انھی پہ دل نثار ہے
خزاں کسے ہے یاد اب، خزاں کی بات بے سبب
بہار ہے عطائے رب، عطائے رب بہار ہے
امنگ بھی ترنگ بھی، ادھر وہ شوخ و شنگ بھی
ادھر رباب و چنگ بھی، لبوں پہ اک پکار ہے
فلک بھی ایک جست تھا کہ ہیچ اوج و پست تھا
یہ دل جو مے پرست تھا، نثار حسن یار ہے
یہ چاندنی کی جستجو، یہ بارشوں کی گفتگو
یہ قمریوں کی ہاؤ ہو، اسی سے افتخار ہے
جو سرخ رنگ پھول ہیں، تو زرد رو ببول ہیں
وفاؤں کے اصول ہیں، جفا تو شرمسار ہے
روش روش، چمن چمن، طرح طرح کے بانکپن
یہ یاسمیں، وہ نسترن، عروس لالہ زار ہے
نشاط کے سراغ ہیں، جو مے سے پر ایاغ ہیں
لو، تازہ تر دماغ ہیں کہ باغ میں بہار ہے
ملی گلوں کے درمیاں ، عجیب سبزہ زاریاں
پڑی ہوئی یہاں وہاں، وہ شبنمی پھوار ہے
وہ قمریاں، یہ بلبلیں ، یہ سر اٹھاتی کونپلیں
چمن میں سب یہ غل کریں، بہار ہے بہار ہے
اسی سے ہے سجا ہوا، ہے دل سے دل ملا ہوا
اسی پہ دل فدا ہوا، اسی پہ جانثار ہے
خدا کی مہربانیاں، بہار کی نشانیاں
گلوں میں شادمانیاں، ملول خار خار ہے
رہا نہ کوئی تشنہ لب، نئی ادا، نئے ہیں ڈھب
خزاں کے سر پہ وار اب بنام ذوالفقار ہے
ہوا میں نغمہ زا چہک، فضا میں ہے نئی مہک
ہے ڈالیوں میں اک لہک، یہ کیسا کاروبار ہے ؟
پیو ہر ایک جام سے، نگاہ بادہ فام سے
پھرو نہ تشنہ کام “سے“، شراب فیض بار ہے
ہے آئنہ صفات کا، لہو، گل حیات کا
جمال و کائنات کا ، جو ربط استوار ہے
یہی ہیں اصل ساعتیں، کرم کی ہیں روایتیں
ورق ورق پہ آیتیں، انھی پہ انحصار ہے
فلک پہ قوس و قزح کا، زمیں پہ جام و قدح کا
نئی نئی ہی طرح کا، فسون چشم یار ہے
فسردہ ہے ایاز کیوں؟ کھلا نہیں ہے راز کیوں؟
یہ ناز کیوں؟ نیاز کیوں؟ کوئی تو پردہ دار ہے
یہ فصل گل، یہ عکس مل، پیام لطف ذات کل
بپا ہے چار سمت غل، چمن میں پھر بہار ہے
گلوںمیں رنگ دیکھ کر، مٹے ہیں غم ، رہا نہ ڈر
ہوا ہے شاد ہر بشر، طلسم لالہ زار ہے
نہ در بدر جبیں دھریں، خزاں کی بات کیوں کریں؟
یہی ہے قول رومی ! سچ ، بہار پھر بہار ہے