بہت تھا خوف جس کا پھر وہی قصا نکل آیا
مرے دکھ سے کسی آواز کا رشتا نکل آیا
وہ سر سے پاؤں تک جیسے سلگتی شام کا منظر
یہ کس جادو کی بستی میں دل تنہا نکل آیا
جن آنکھوں کی اداسی میں بیاباں سانس لیتے ہیں
انہیں کی یاد میں نغموں کا یہ دریا نکل آیا
سلگتے دل کے آنگن میں ہوئی خوابوں کی پھر بارش
کہیں کونپل مہک اٹھی کہیں پتا نکل آیا
پگھل اٹھتا ہے اک اک لفظ جن ہونٹوں کی حدت سے
میں ان کی آنچ پی کر اور بھی سچا نکل آیا
گماں تھا زندگی بے سمت و بے منزل بیاباں ہے
مگر اک نام پر پھولوں بھرا رستا نکل آیا