مدھم ہوئے جاتے ہیں دھرتی کے اجالے
جب میر بکاؤ ہوں تو پھر کس سے ہوں نالے
حالات بدلنے نہیں دیتے تھے وڈیرے
تقدیر جو پلٹی تو ملے فوجی لٹیرے
جنکو کبھی سمجھا تھا دل و جان سے پیارا
عیاری سے کرنے لگے بیوپار ہمارا
سرحدی محافظ بھی دغاباز ہوئے ہیں
جو دشمن ازلی تھے وہ ہمراز ہوئے ہیں
گر اتنی محبت ہے انہیں پھر سے بلا لو
بندوق کو چھوڑو ارے کشکول اٹھالو
بےفیض توقع کا شجر ٹوٹ ہی جائے
بہروپ کا بھانڈا ہے ضیا پھوٹ ہی جائے
اے قوم ذرا دیکھ وفاؤں کا صلہ ہے
کیا خوب کہ قاتل بھی تجھے گھر کا ملا ہے