جب روٹھ جاؤں تو وُہ مُجھے مناتی ہے
گلے سے لگا کر ساری رنجشیں مِٹاتی ہے
کس قدر پیار ہے اُسے مُجھ سے
میرے سارے نخرے ہنسی خُوشی اُٹھاتی ہے
کبھی بھی اِختلافِ رائے پیدا نہیں ہوئی
میرے سروں کے ساٹھ اپنی آواز مِلا تی ہے
نفاست کوٹ کے بھری ہے اُس کے ہاتھوں میں
کتنے سلیقے سے ہر شے کو سجاتی ہے
ڈرتی ہے بدنامی اور رُسوائی سے وُہ
اپنی محبت کو دوسروں سے چُھپاتی ہے
راہیں تکتی ہے سارا دِن میرے آنے کی
جب لوٹ کے آؤں میں گلے سے لگاتی ہے