بیگم میری کیا خوب بیگم ہے باتوں کی ایک ببل گم ہے چپک جائے اگر کوئی بات دماغ پر اس کے ہاتھ اور پاوں میں بھی آجائے حرکت اس کے اس ڈر سے ہم کہتے ہیں اسے یار اب چھوڑو ضد اور کرو پیار