بے خبر سا تھا مگر سب کی خبر رکھتا تھا
چاہے جانے کے سبھی عیب و ہنر رکھتا تھا
لا تعلق نظر آتا تھا بظاہر لیکن
بے نیازانہ ہر اک دل میں گزر رکھتا تھا
اس کی نفرت کا بھی معیار جدا تھا سب سے
وہ الگ اپنا اک انداز نظر رکھتا تھا
بے یقینی کی فضاؤں میں بھی تھا حوصلہ مند
شب پرستوں سے بھی امید سحر رکھتا تھا
مشورے کرتے ہیں جو گھر کو سجانے کے لیے
ان سے کس طرح کہوں میں بھی تو گھر رکھتا تھا
اس کے ہر وار کو سہتا رہا ہنس کر محسنؔ
یہ تاثر نہ دیا میں بھی سپر رکھتا تھا