بے خودی پہ تھا فانیؔ کچھ نہ اختیار اپنا
عمر بھر کیا ناحق ہم نے انتظار اپنا
تاب ضبط غم نے بھی دے دیا جواب آخر
ان کے دل سے اٹھتا ہے آج اعتبار اپنا
عشق زندگی ٹھہرا لیکن اب یہ مشکل ہے
زندگی سے ہوتا ہے عہد استوار اپنا
شکوہ برملا کرتے خیر یہ تو کیا کرتے
ہاں مگر جو بن پڑتا شکوہ ایک بار اپنا
غم ہی جی کا دشمن تھا غم سے دور رہتے تھے
غم ہی رہ گیا آخر ایک غم گسار اپنا
لے گیا چمن کو بھی موسم بہار آ کر
اب قفس کا گوشہ ہے حاصل بہار اپنا
جھوٹ ہی سہی وعدہ کیوں یقیں نہ کر لیتے
بات دل فریب ان کی دل امیدوار اپنا
انقلاب عالم میں ورنہ دیر ہی کیا تھی
ان کے آستاں تک تھا خیر سے غبار اپنا
دل ہے مضطرب فانیؔ آنکھ محو حیرت ہے
دل نے دے دیا شاید آنکھ کو قرار اپنا