بے سبب لوگ بدلتے نہیں مسکن اپنا
تم نے جلتے ہوئے دیکھا ہے نشیمن اپنا
کس کڑے وقت میں موسم نے گواہی مانگی
جب گریبان ہی اپنا ہے نہ دامن اپنا
اپنے لٹ جانے کا الزام کسی کو کیا دوں
میں ہی تھا راہنما میں ہی تھا رہزن اپنا
کوئی ملتا ہے جو اس دور پر آشوب میں دوست
مشورے دے کے بنا لیتے ہیں دشمن اپنا
جب بھی سچ بولتے بچوں پہ نظر پڑتی ہے
یاد آ جاتا ہے بے ساختہ بچپن اپنا
یوں کیا کرتے ہیں لڑکوں کو نصیحت اکثر
جیسے ہم نے نہ گزارا ہو لڑکپن اپنا
رنگ محفل کے لیے ہم نہیں بدلے محسنؔ
وہی انداز تخیل ہے وہی فن اپنا