سنو دورِ بے حس میں جب کمالی ہار جاتا ہے
ہرامی جیت جاتے ہیں ہلالی ہار جاتا ہے
جہاں باغوں کی ڈالی پر برسنا چھوڑ دے بادل
وہاں باغوں کی رکھوالی پہ مالی ہار جاتا ہے
جو کر لیتے ہیں سودے خود غرض اپنے ضمیروں کے
تو لوٹے جیت جاتے ہیں کھلاڑی ہار جاتا ہے
یقیں جس کو ہو انصافِ خدا پر دیکھا ہے میں نے
جہاں میں مات کھا کر بھی وہ بازی مار جاتا ہے