جتنی روحیں کائنا ت میں ہیں موجود
ذروں کی مانند سینوں میں ہیں قلوب
بے قرار پھرتے ہیں مارے مارے سب
تڑپتے ہیں پر جیتے ہیں عاقل و مجذوب
مر کر بھی قبروں سے نکل آتے ہیں
چاہِ دنیا میں کٹ مرتے ہیں نفس شناس
نہ چاھے چھوڑ ے یہ رنگ و میلے
مٹی میں ملتاہے نالاں یہ جسد خاک
گریں تاج محل جب آنکھوں سامنے
لگتے ہیں ٹھکانے تبھی ہوش و حواس
الہی یہ تیرے بے خوف بندے
ڈرتے نہیں ترے چہر ہ ِ ذو الجلال
مانگتے ہیں دو جہاں کی سربلندی
گرتے ہیں خاہش پہ بے خطر و ملال