کیا رہے قائم یہاں اب اختیار زندگی
موت کی ہو جائے جب طلبگار زندگی
گھٹ گھٹ کے ہے جینا مرنا ہے گمنام
یہ ہے میرے شہر کا معیار زندگی
گھر میں بھوک اور باہر بارود کا خوف
ختم ہونے کو ہیں سبھی آثار زندگی
لہو سے تول کے پایا تھا جسے ہم نے
مفلوج ہوا ہے وہیں کاروبار زندگی
عصمتوں کی حفاظت٬ نہ گرم لہوکا خیال
شرمندہ ہوئی ہے یہاں ہر بار زندگی
جو نقش پاء محمد سے نگاہ ہٹالی ہم نے
بھٹکتی ہے کوچہ کفر میں شرمسار زندگی
توشہ آخرت باندھ٬ اس پر تکیہ نہ کر
یہ تو پل میں ٹوٹ جائیگا٬ کیا اعتبار زندگی