بے وفا سے دوستی کی
دوستی سے دشمنی کی
آپ خوش ہیں دور ہم سے
بات یہ بھی ہے خوشی کی
صلح بھی کر لیں گے ہم تم
کیا ضرورت بر ہمی کی
رشتہ آخر رشتہ ہی ہے
تھی نصیحت اجنبی کی
خود بدل جائے گا وہ بھی
اک گھڑی بس آگہی کی
ساری محفل کو رُلا دی
اک کہانی بے رُخی کی
بھول کر بھی بھولتا ہے
یہ ہے فطرت آدمی کی
بھوکے تھےمیرے نبی بھی
انتہا تھی سادگی کی
خامیاں تقلید میں ہیں
راہ سچی ہے وحی کی
اک زمانے سے ہے کوشش
ظلمتوں میں روشنی کی
حق کے داعی بن گئے ہم
تھی جو عادت شاعری کی
ہر کوئی غم کا ہے مارا
بات کرنا دل لگی کی
اک مصیبت ہے الہی
زندگی بھی بے بسی کی
ہم تو دل والے ہیں ناصح
بات کر زندہ دلی کی
زندگی بھر ہم غلط تھے
سوچ ہے یہ دشمنی کی
دشمنی سے دشمنی ہے
ایک حد ہے سَرکشی کی
کفرِ نعمت ہے اے نادرؔ
زندگی بھی خود کشی کی