بے وفائی کرکے نکلوں یا وفا کر جاؤں گا
شہر کو ہر ذائقے سے آشنا کر جاؤں گا
تو بھی ڈھونڈے گا مجھے شوق سزا میں ایک دن
میں بھی کوئی خوبصورت سی خطا کر جاؤں گا
مجھ سے اچھائی بھی نہ کر میری مرضی کے خلاف
ورنہ میں بھی ہاتھ کوئی دوسرا کر جاؤں گا
مجھ میں ہیں گہری اداسی کے جراثیم اس قدر
میں تجھے بھی اس مرض میں مبتلا کر جاؤں گا
شور ہے اس گھر کے آنگن میں ظفرؔ کچھ روز اور
گنبد دل کو کسی دن بے صدا کر جاؤں گا