بے پناہ درد سِسکیوں میں ڈھل گیا ہے اب
پتھر آنکھوں سے جو آنسو نکل گیا ہے اب
وہ ایک شخص جسے لوگ مجسمہ کہتے تھے
غم کی شِدت سے آخر پگھل گیا ہے اب
اب مُوئثر نہیں آئینگے محبت کے لفظ
وہ جسے جانتے تھے تم بدل گیا ہے اب
حالِ ماضی کو چند اوراق میں نثر کر کے
یہ سمجھتے ہو کہ دل بہل گیا ہے اب
تماشہ گیر کی فہرست میں تُو بھی شامل تھا
بس یہی غم مجھے زندہ نگھل گیا ہے اب
اب تو ہوش کے ناخن لے آے پاگل دل
خواب نگر کا شہر بھی جل گیا ہے اب
آخری اُمید تھی جو روشنی کی زنداں میں
وہ موم جل کر سارا پگھل گیا ہے اب
حُسین! جو منتظر تھا کسی سہارے کا
گرتے گرتے وہ خود ہی سنبھل گیا ہے اب