بے پھل ، بے سایہ ، پیڑوں کی طرح ہو
تاریک در تاریک ، اندھیروں کی طرح ہو
اُمید کا جہاں جسے پا کر بےکل ہوا
اُن بُجھے ہوۓ بےرنگ ، سویروں کی طرح ہو
جو اپنی صَفوں میں صفِ ماتم بچھا گۓ
ریوڑ میں اُن کالی ، بَھیڑوں کی طرح ہو
پہنادی گٸ ہوں جنہیں مصلحت کی بیڑیاں
اُن ناتواں و لاغر ، پَیروں کی طرح ہو
ُزُباں کا اعتبار نہ وعدوں کی پاسداری
گویا کہ تم بھی چور ، لٹیروں کی طرح ہو
بےحس و بےدرد کہا کرتے تھے تم جنہیں
تم بھی تو اُنہیں گونگے ، بہروں کی طرح ہو
اخلاق عالمِ ظلم میں کچھ بھی تو نہ بدلہ
کردار میں یعنی تم بھی ، اوروں کی طرح ہو