ہم نےخود کو چیونٹی کےمشابہ تھا جانا
وہ سیکھتےرہےسبق خود کو تیموری سمجھ کے
طوطےسےخداجانےکیسی تھی نسبت جناب کی
کڑوی کسیلی بھی کھاتے رہےوہ چوری سمجھ کے
مبالغہ آرائی کی کوئی حد نہیں ہوتی جبھی تو
جناب پڑوسن پہ لکھتےرہےغزل مادھوی سمجھ کے
چہرےپہ کئی نقاب تھےمگرہمیں اس سےکیاغرض
ہم داد ہی دیتےرہےانہیں میرپوری سمجھ کے
اک ہم ہی نہ تھےان کےمداخواہوں میں تنہا
ہمساہی بھی مزےلیتی رہی پانی پوری سمجھ کے
جن کی نظر میں پڑوسی مرغیاں تھیں دال برابر
وہ انہیں کھاتےرہے چکن تندوری سمجھ کے