مٹ گئی امید پر آج بھی اعتبار میں بیٹھے ہیں
گزر گیا وقت پھر بھی انتظار میں بیٹھے ہیں
کتنے یقین سے تم پے بھروسہ کیا تھا
پر نہ زمین ملی نہ آسمان ملا بس اک غبار میں بیٹھے ہیں
تم نے تو دعوے کیے تھے بلوچستان کی ترکی کے
پر غریبی میں پِسے ہم بلوچ تو آج بھی بے روزگار بیٹھے ہیں