تاج محل ( ساحر لدھیانوی کی ایک شاہکار نظم)
Poet: SAHIR LUDHIANVI By: IRAM, Lahore
تاج تیرے لئے اک مظہر الفت ہی سہی
تجھ کو اس وادی ء رنگیں سے عقیدت ہی سہی
میری محبوب ! کہیں اور ملا کر مجھ سے
بزم شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی
ثبت جس راہ میں ہوں سطوت شاہی کے نشاں
اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی ؟
میری محبوب ! پس پردہ تشہیر وفا
تو نے سطوت کے نشانوں کو تو دیکھا ہوتا
مردہ شاہوں کے مقابر سے بہلنے والی
اپنے تاریک مکانوں کو تو دیکھا ہوتا
ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے
کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جزبے ان کے
لیکن ان کے لئے تشہیر کا سامان نہیں
کیونکہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے
یہ عمارات و مقابر ، یہ فصیلیں یہ حصار
مطلق الحکم شہنشاہوں کی عظمت کے ستوں
سینہ ء دہر کے ناسور ہیں کہنہ ناسور
جزب ہے ان میں ترے اور مرے اجداد کا خوں
میری محبوب ! انہیں بھی تو محبت ہو گی
جن کی صنائی نے بخشی ہے اسے شکل جمیل
ان کے پیاروں کے مقابر رہے بے نام و نمود
آج تک ان پہ جلائی نہ کسی نے قندیل
یہ چمن زار ،یہ جمنا کا کنارہ ، یہ محل
یہ منقش درو دیوار ، یہ محراب ، یہ طاق
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارہ لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مزاق
میری محبوب ! کہیں اور ملا کر مجھ سے
ہر دل سے خطا ہو جاتی ہے، بگڑو نہ خدارا، دل ہی تو ہے
اس طرح نگاہیں مت پھیرو، ایسا نہ ہو دھڑکن رک جائے
سینے میں کوئی پتھر تو نہیں احساس کا مارا، دل ہی تو ہے
جذبات بھی ہندو ہوتے ہیں چاہت بھی مسلماں ہوتی ہے
دنیا کا اشارہ تھا لیکن سمجھا نہ اشارا، دل ہی تو ہے
بیداد گروں کی ٹھوکر سے سب خواب سہانے چور ہوئے
اب دل کا سہارا غم ہی تو ہے اب غم کا سہارا دل ہی تو ہے
کچھ سمجھ میں نہیں آتا تجھے کیا پیش کروں
تیرے ملنے کی خوشی میں کوئی نغمہ چھیڑوں
یا ترے درد جدائی کا گلا پیش کروں
میرے خوابوں میں بھی تو میرے خیالوں میں بھی تو
کون سی چیز تجھے تجھ سے جدا پیش کروں
جو ترے دل کو لبھائے وہ ادا مجھ میں نہیں
کیوں نہ تجھ کو کوئی تیری ہی ادا پیش کروں
ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں بے دلی سے ہم
مایوسئ مآل محبت نہ پوچھیے
اپنوں سے پیش آئے ہیں بیگانگی سے ہم
لو آج ہم نے توڑ دیا رشتۂ امید
لو اب کبھی گلہ نہ کریں گے کسی سے ہم
ابھریں گے ایک بار ابھی دل کے ولولے
گو دب گئے ہیں بار غم زندگی سے ہم
گر زندگی میں مل گئے پھر اتفاق سے
پوچھیں گے اپنا حال تری بے بسی سے ہم
اللہ رے فریب مشیت کہ آج تک
دنیا کے ظلم سہتے رہے خامشی سے ہم
Thukra Na Den Jahan Ko Kahin Be-Dili Se Ham
Mayusi-E-Ma.Al-E-Mohabbat Na Puchhiye
Apnon Se Pesh Aa.E Hain Beganagi Se Ham
Lo Aaj Ham Ne Tod Diya Rishta-E-Umid
Lo Ab Kabhi Gila Na Karenge Kisi Se Ham
Ubhrenge Ek Baar Abhi Dil Ke Valvale
Go Dab Ga.E Hain Bar-E-Ġham-E-Zindagi Se Ham
Gar Zindagi Men Mil Ga.E Phir Ittifaq Se
Puchhenge Apna Haal Tiri Bebasi Se Ham
Allah-Re Fareb-E-Mashiyyat Ki Aaj Tak
Duniya Ke Zulm Sahte Rahe khamushi Se Ham
یا با شعور بادہ گساروں میں آئے گا
وہ جس کو خلوتوں میں بھی آنے سے عار ہے
آنے پہ آئے گا تو ہزاروں میں آئے گا
ہم نے خزاں کی فصل چمن سے نکال دی
ہم کو مگر پیام بہاروں میں آئے گا
اس دور احتیاج میں جو لوگ جی لئے
ان کا بھی نام شعبدہ کاروں میں آئے گا
جو شخص مر گیا ہے وہ ملنے کبھی کبھی
پچھلے پہر کے سرد ستاروں میں آئے گا
اگر صدا نہ اٹھے کم سے کم فغاں نکلے
فقیر شہر کے تن پر لباس باقی ہے
امیر شہر کے ارماں ابھی کہاں نکلے
حقیقتیں ہیں سلامت تو خواب بہتیرے
ملال یہ ہے کہ کچھ خواب رائیگاں نکلے
ادھر بھی خاک اڑی ہے ادھر بھی خاک اڑی
جہاں جہاں سے بہاروں کے کارواں نکلے







