تاروں بھری پلکوں کی برسائی ہوئی غزلیں
ہے کون پروئے جو بکھرائی ہوئی غزلیں
وہ لب ہیں کہ دو مصرعے اور دونوں برابر کے
زلفیں کہ دل شاعر پر چھائی ہوئی غزلیں
یہ پھول ہیں یا شعروں نے صورتیں پائی ہیں
شاخیں ہیں کہ شبنم میں نہلائی ہوئی غزلیں
خود اپنی ہی آہٹ پر چونکے ہوں ہرن جیسے
یوں راہ میں ملتی ہیں گھبرائی ہوئی غزلیں
ان لفظوں کی چادر کو سرکاؤ تو دیکھو گے
احساس کے گھونگھٹ میں شرمائی ہوئی غزلیں
اس جان تغزل نے جب بھی کہا کچھ کہئے
میں بھول گیا اکثر یاد آئی ہوئی غزلیں