نہ جامِ جم کی خواہش ہے نہ چاہت مجھ کو کوثر کی
تمنّا ارضِ طیبہ میں ہے جامِ چشمِ سرور کی
جہاں آتے ہیں یوں قدسی کہ آہٹ تک نہیں ہوتی
وہی ہے اِک مقدّس بارگہ محبوبِ داور کی
خدایا ! روح میری مائلِ پرواز ہو جس دم
ترے در پر جھکا ہو سر نظر میں کُو ہو سرور کی
چمک جاے دلِ عاصی تجلّیہاے جاناں سے
صفائی ہو نفَس کی اور مرے باطن کی ظاہر کی
مُشاہدؔ سرفرازِ کوکبِ الطاف ہوجاے
جو بھر لے دل میں اُلفت سرورِدیں نور پیکر کی