تجھ سے ملنے کی صورت نکل بھی سکتی ہے
درد کی لہر خوشیوں میں بدل بھی سکتی ہے
تم ہم سے ملنے تو آئو کبھی ایکبار بھول کر
پیار کی شمع راستوں میں جل بھی سکتی ہے
گرا دو نفرت کی دیواروں کو اے اہل چمن والو
پت جھڑ کی فضا پھولوں میں بدل بھی سکتی ہے
بڑھائو دوستی کا ہاتھ رنجشیں بھول کر تم
دشمنی کی یہ دیوار پل میں پگل بھی سکتی ہے