تجھے اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں سجا رکھا ہے
سمجھ اپنی قسمت کا تارا تجھے بنا رکھا ہے
تو جتنے بتوں کو بت خانے میں سجا کے رکھ
میں نے بھی بنا اک خدا رکھا ہے
ترک الفت کا مزا بھی کیا مزا ہے دوست
ہم نے بھی درد بھرا دل سینے میں چھپا رکھا ہے
بے وفا پچھتا ہے وفا کے معنی مجھ سے توبہ
ہاے اس مکار کی مکاری نے بہت ستا رکھا ہے
تو کبھی یاد تو کر ظلم بھولنے والے مجھے
اک آنسوں بھرا سمندر م نے آنکھوں میں سما رکھا ہے
تم تو آئیے سے بھی دوچار ہاتھ آگے نکلے
خود برستی میں تمہیں کہیں گنوا رکھا ہے
کل کی بات کوئی اور تھی آج وہ کل نہیں
نہ جانے کیوں تم نے سر جہاں اٹھا رکھا ہے
بھلا ایسا کون ہے جو مجھے ڈھونڈنے نکلے
میں نے خود سے خود کو ہی چھپا رکھا ہے
میں اور کیا دوں ثبوت اپنی وفا کا قلزم
میں نے ہر خار کو دامن میں سجا رکھا ہے