تجھے منزل نہیں ملتی مجھے رستہ نہیں ملتا
کہیں گُم ہو گیا اسکول کا بستہ نہیں ملتا
کہا آؤ مِلو یہ ہیں شریکِ زندگی میرے
مَیں حیراں ہوں کہ ایسا رازِ سربستہ نہیں ملتا
بہت سی ٹھوکریں کھائیں اُٹھے اور پھر لگی ٹھوکر
بہت ہیں اور بھی پر ہم سا وارفتہ نہیں ملتا
تری زنبیل میں دنیا بڑے ہمدرد حاکم ہیں
پہ میرے حکمراں سا واللہ وارستہ نہیں ملتا
زیادہ ہوں گی خود کشیاں عوامی دَور آنے دو
ابھی اس دور میں تو زہر بھی سستا نہیں ملتا
کہاں اس وقت ہے اُمّت ترددّ ہے تذبذب ہے
جواب اس بات کا فی الحال برجستہ نہیں ملتا
بہت افسردہ و مایوس ہو کیوں کس لئے خواجہ
وہ گلشن لے اُڑے ہیں تم کو گلدستہ نہیں ملتا