تخیّل میں جن سے نفرت کا اظہار کیے بیٹھے ہو،
درحقیقت اُنی ہی سے تو پیار کیے بیٹھے ہو۔
وہ اور ہوں گے جن کو رہِ محبت میں منزل ملی،
تم تو اُلفت میں اپنی ہستی بیکار کیے بیٹھے ہو۔
نہ تم کو چین آیا، نہ اُن کو قرار ملا،
عجب تماشہ تم بھی سرِ بازار کیے بیٹھے ہو۔
خموشیوں میں بھی سنائی دیتی ہے اُن کی صدا،
تم دل کے سناٹے میں بھی گفتار کیے بیٹھے ہو۔
جو خواب ٹوٹے تھے، اُن کو جوڑنے کی تمنا تھی،
مگر پلکوں پہ ہی اُن کو غبار کیے بیٹھے ہو۔
لبوں پہ حرفِ شکایت، مگر آنکھ میں نمی،
تم خود ہی اپنی حالت کو خوار کیے بیٹھے ہو۔
وفا کے نام پہ سب کچھ لٹا دیا تم نے،
اور اب خود کو ہی سزاوار کیے بیٹھے ہو۔
کس سے کرنے لگے ہو شکوۂ غمِ حیات کا "حفیظ"،
کون آنے والا ہے، کس کا انتظار کیے بیٹھے ہو؟