پہنچیں اِک پھل فروش تک، خاتون خرد سال
چہرہ غصہ سے سُرخ اور آنکھوں میں تھا جلال
کہنے لگیں کہ جھوٹ سے بیچا ہے تم نے مال
تربوز تو یہ زرد ہیں، ہرگز نہیں ہیں لال
دھوکہ دہی پہ کیوں نہ میں لکھواؤں جا رپٹ؟
پولیس والے پھر تیری دُکاں کریں گے چٹ
لازم ہے اپنے جھوٹ پہ تم کو رہے ملال
جلدی سے اپنے گلے سے پیسے میرے نکال“
سوچا یہ پھل فروش نے، بچنا ہے اب مُحال
دھوکہ کے اعتراف میں نقصاں ہے بہرحال
گر اپنے جھوٹ کا میں نے کیا جو اعتراف
مجمع میری خطا کو نہ ہرگز کرے گا معاف
لازم ہے اپنی عقل کا تھورا سا استعمال
کہنے لگا کہ “ممکن نہیں دھوکے کا خیال
دھوکہ؟ اور وہ بھی آپ سے؟ میری بھلا مجال؟
لیکن کہ غلط فہمی کا بیشک ہے احتمال
بہتر ہے آپ ہم کو سُنائیں تمام حال“
خاتون بولیں سانس کو اپنی کرکے بحال
“تربوز تم نے دئے تھے، کہا تھا لال ہیں
بن کاٹے ہی لے جائیے، بے حد کمال ہیں
تربوز جو دئیے تم نے، شاپر میں ڈال کے
شاپر بیچارہ پھٹ گیا، دیتے سنبھال کے
اک تیز رفتار ٹرک کے نیچے آئے تربوز
ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے، سارے ہی ہائے تربوز
نقصان سے زیادہ مجھے اس کا درد تھا
جس ٹکڑے کو بھی دیکھا، وہ اندر سے زرد تھا“
سُن کر یہ ساری داستاں، بولا وہ پھل فروش
“انصاف خود ہی کیجئے، میرا بھلا کیا دوش؟
دنیا میں کوئی کتنا ہی بانکا، سجیلا ہو
ممکن ہے موت دیکھ کر نہ چہرہ پیلا ہو؟
تربوز میں نے دئیے تھے، سُرخ جوں انار
ٹرک کو آتے دیکھ کر، پیلے پڑے زنہار
کیسا ہی بہادر ہو یا جواں مرد ہو
ٹرک، کُچلنے آئے تو لازم کہ زرد ہو
تربوز میرے سُرخ تھے، اس میں نہ کیجئے شک
قصوروار میں نہیں بلکہ ہے وہ ٹرک“