ترے جیسا میرا بھی حال تھا نہ سکون تھا نہ قرار تھا
یہی عمر تھی مرے ہم نشیں کہ کسی سے مجھ کو بھی پیار تھا
میں سمجھ رہا ہوں تری کسک ترا میرا درد ہے مشترک
اسی غم کا تو بھی اسیر ہے اسی دکھ کا میں بھی شکار تھا
فقط ایک دھن تھی کہ رات دن اسی خواب زار میں گم رہیں
وہ سرور ایسا سرور تھا وہ خمار ایسا خمار تھا
کبھی لمحہ بھر کی بھی گفتگو مری اس کے ساتھ نہ ہو سکی
مجھے فرصتیں نہیں مل سکیں وہ ہوا کے رتھ پر سوار تھا
ہم عجیب طرز کے لوگ تھے کہ ہمارے اور ہی روگ تھے
میں خزاں میں اس کا تھا منتظر اسے انتظار بہار تھا
اسے پڑھ کے تم نہ سمجھ سکے کہ مری کتاب کے روپ میں
کوئی قرض تھا کئی سال کا کئی رت جگوں کا ادھار تھا