ترے دم سے ہی زندگی زندگی ہے
ترا غم سلامت مجھے کیا کمی ہے
خرد دل سے تکرار کیوں کررہی ہے
کہا نا ! یہی ہے،یہی ہے،یہی ہے
نگاہوں میں جب سے بسایا ہے تم کو
کوئی آرزو اب نہ با قی ر ہی ہے
میرے پاس ہے دولت عشق وافر
بتا میرے ہمدم تجھے کیا کمی ہے
چلو سیکھ آتے ہیں آداب ان سے
سنا ہے کہ پھر وہاں محفل سجی ہے
چراغوں کے بدلے یہ دل جل رہا ہے
اسے حاسدوں کی نظر لگ گئ ہے
تری یاد ہے خالی کمرے میں ہر سو
مری خلوتیں ہیں مری ڈائری ہے
وہ لوٹ آئے تھک کے جفاؤں سے اپنی
تمنا یہی ا ب تو با قی بچی ہے
کروں لاکھ سجدے میں قدموں میں ماں کے
یہاں ایک جنت کی کھڑکی کھلی ہے