ترے وہ عہد و پیماں اور پھر ان سے مکر جانا
تری لفاظیوں کو ہم نے پھر بھی معتبر جانا
جہاں میں آج کب کوئی کسی کے ساتھ چلتا ہے
چلا جو دو قدم ہمراہ ہم نے ہم سفر جانا
تمہاری سادہ لوحی سے مجھے بس یہ شکایت ہے
ملا جو راہ زن اسکو بھی تم نے راہبر جانا
یہ ویرانی، ادھورے خواب ، ملبہ آرزوؤں کا
دلِ برباد کو اجڑا ہوا ہم نے کھنڈر جانا
سلیقہ ہم نے سیکھا ایک پروانے سے جینے کا
اجل کی لو پہ رقصِ زیست کرنا اور مر جانا