ترے پاس جو مجھ کو آنا پڑا ہے
مجھے راستے میں زمانہ پڑا ہے
تمنّا تھی کہ جان لیتے مرا دکھ
مگر قصّہ غم کا سنانا پڑا ہے
تکبّر نے اس کو نہیں جھکنے دیا
مجھے ہاتھ پہلے بڑھانا پڑا ہے
تھکاوٹ اتر ہے گئی تو پڑھو کچھ
پلو نیچے اک خط پرانا پڑا ہے
لگایا جو میں نے محبّت کا نعرہ
سو تاوان مجھ کو لگانا پڑا ہے
گوارہ نہ کیا اس نے تو پوچھنا بھی
مجھے حال اپنا سنانا پڑا ہے
اداسی تھی اتنی کہ ہنس نہ سکا میں
تجھے دیکھ کے مسکرانا پڑا ہے
مخالف ہوا کو ہرانے کی خاطر
چراغوں کو خوں سے جلانا پڑا ہے