تشہیر اپنے درد کی ہر سو کرائیے
جی چاہتا ہے منت طفلاں اٹھائیے
خوشبو کا ہاتھ تھام کے کیجے تلاش رنگ
پاؤں کے نقش دیکھ کے رستہ بنائیے
پھر آج پتھروں سے ملاقات کیجیے
پھر آج سطح آب پہ چہرے بنائیے
ہر انکشاف درد کے پردے میں آئے گا
گر ہو سکے تو خود سے بھی خود کو چھپائے
پھولوں کا راستہ نہیں یارو مرا سفر
پاؤں عزیز ہیں تو ابھی لوٹ جائیے
کب تک حنا کے نام پہ دیتے رہیں لہو
کب تک نگار درد کو دلہن بنائیے
امجدؔ متاع عمر ذرا دیکھ بھال کے
ایسا نہ ہو کہ بعد میں آنسو بہائیے