تصوّر میں اُنہیں ہم جلوہ ساماں دیکھ لیتے ہیں
محمد مصطفٰےؐ کا رُوئے تاباں دیکھ لیتے ہیں
نگاہِ عشق سے وہ حُسنِ پنہاں دیکھ لیتے ہیں
نبیؐ کے رُوپ میں ہم شانِ یزداں دیکھ لیتے ہیں
سفر ہو یا حَضَر، مدّ نظر ہے گُنبدِ خَضرٰی
جمالِ مصطفٰےؐ تا حدّ امکاں دیکھ لیتے ہیں
نظر اُٹھتی نہیں ہے مصحفِ رُوئے محمدؐ سے
بیاضِ نُور میں تفسیرِ قرآں دیکھ لیتے ہیں
نظر پڑ جائے شاہِؐ انبیاء کی جن گداؤں پر
وہ اپنے زیرِ پا تختِ سُلیماںؑ دیکھ لیتے ہیں
طوافِ گُنبدِ خَضرٰی کا جس دَم دھیاں آ جائے
ہم اُس دَم وجد میں اپنے دل و جاں دیکھ لیتے ہیں
تعلّق جن کا ہو جاتا ہے نُورِ مصطفائیؐ سے
دلوں میں اپنے روشن شمعِ ایماں دیکھ لیتے ہیں
نصیرؔ! اُس آستاں پر جو پہنچ جاتے ہیں قسمت سے
اِسی عالَم میں وہ بخشش کا ساماں دیکھ لیتے ہیں