تصویر تیری یوں ہی رہے کاش جیب میں
گویا کہ حسن وادیٔ کیلاش جیب میں
رستے میں مجھ کو مل گیا یوں ہی گرا پڑا
میں نے اٹھا کے رکھ لیا آکاش جیب میں
پندرہ منٹ سے ڈھونڈ رہا ہے نہ جانے کیا
ڈالے ہوئے ہے ہاتھ کو قلاش جیب میں
آ جا کہ یار پان کے کھوکھے پہ جمع ہیں
سگریٹ چھپا کے ہاتھ میں اور تاش جیب
سب ٹینٹ اور کرسیوں والے کما گئے
شاعر نے ٹھونس کر بھری شاباش جیب میں
اب اس غریب چور کو بھیجو گے جیل کیوں
غربت کی جس نے کاٹ لی پاداش جیب میں
رکھتا نہیں ہوں پاس میں اپنی کبھی شناخت
پھرتا ہے کون لے کے کبھی لاش جیب میں