قابل رشک ہے جوتجھ سے شناسائی ہو تصورات نے مل کرتری بزم سجائی ہو
ایک ساتھ رہیں ہم ہماری کبھی نہ جدائی ہو دل میں ہویادتیری گوشہء تنہائی ہو
پھرتوخلوت میں عجب انجمن آرائی ہو
سامنے میرے رخ انورہواجل آئی ہو کلمہ طیبہ زبان پرہواجل آئی ہو
محبتوں کااتنا اثرہواجل آئی ہو آستانہ پہ تیرے سرہواجل آئی ہو
اوراے جان جہاں توبھی توتماشائی ہو
نہیں پائی کسی نے بھی اس سے بڑی راحت نہیں ہے میسرکسی اورجگہ پہ ایسی راحت
متلاشی ہیں سب سکون کے چاہتے ہیں سبھی راحت اس کی قسمت پہ فدا تخت شاہی کی راحت
خاک طیبہ پہ جسے چین کی نیندآئی ہو
میرے مصطفی کاملا جواب نہیں عالم کو محبوب کی موجودگی ہوتا عذاب نہیں عالم کو
چھپے ہیں عالم سے حجاب نہیں عالم کو اک جھلک دیکھنے کی تاب نہیں عالم کو
وہ اگرجلوہ کریں کون تماشائی ہو
عطاء کرتے ہیں امت کو رب سے لیکے رحمت دوجہاں بن کرآئے رسول میرے
بھیجودرود ان پہ سلام بھیجوشام سویرے آج جوعیب کسی پرنہیں کھلنے دیتے
کب وہ چاہیں گے میری حشرمیں رسوائی ہو
خدافرمایا نبی سے کوئی آگے نہ بڑھے تقاضائے ادب ہے پاؤں کسی کا نہ پڑے
ہم عاصیوں پہ قائم ان کا سایہ رہے یہی منظورتھا قدرت کو کہ سایہ نہ بنے
ایسے یکتاکے لیے ایسی ہی یکتائی ہو
امت کی بخشش کے لیے طویل ہیں قیام سجدے جاں کے دشمنوں کو معاف کیا نہیں لیے بدلے
پھیلے ہوئے ہیں چارسو جودوسخاکے چرچے کبھی ایسا نہ ہواان کے کرم کے صدقے
ہاتھ کے پھیلنے سے پہلے نہ بھیک آئی ہو
گزریں یادنبی میں صدیقؔ باقی ہیں جتنی سانسیں چھپ جائیں عیب سب کے اپنے من میں جھانکیں
ملے دردمندایسا درداپنے جس سے بانٹیں بندجب خواب اجل سے ہوں حسنؔ کی آنکھیں
اس کی نظروں میں تیراجلوہ زیبائی ہو