تلاش دریا کی تھی بظاہر سراب دیکھا
وہ کون آنکھیں تھیں جن کی خاطر یہ خواب دیکھا
جو رت بھی آئے ہمیں سے گریہ کا رزق مانگے
ہماری صورت کسے زمیں انتخاب دیکھا
ندامتیں بہتے آنسوؤں سے شرح نہ پائیں
سفینہ اپنی دعا کا مقتل رکاب دیکھا
برستی آنکھوں سے سوکھے تالاب بھر نہ پائیں
یہ غم کا دریا مثال قرض سحاب دیکھا
کبھی تو آنکھوں میں ان کی آبادیاں کھلیں گی
وہ بستیاں عمر بھر جنہیں زیر آب دیکھا
ابھی تو بخیہ گری کو سوزن ہی کام آئے
حنا کی دہلیز پہ طلوع حجاب دیکھا
یقیں کہ تشنہ لبی مقدر رقم رہے گی
وفور دریا بھی مثل دریائے خواب دیکھا
جتا گیا ساری عادتیں بس گلے سے لگ کے
اس ایک انجم کو چاندنی کے حساب دیکھا
خیال اس کے بدن کی گلیوں کو ڈھونڈتا ہے
وہ جس کو دیکھا تو حیرتوں کو نقاب دیکھا