تمثالِ جلوہ عرض کر اے حسن! کب تلک آئینۂ خیال کو دیکھا کرے کوئی عرضِ سر شک پر ہے فضائے زمانہ تنگ صحرا کہاں کہ دعوتِ دریا کرے کوئی وہ شوخ اپنے حسن پہ مغرور ہے اسد! دکھلا کے اس کو آئینہ توڑا کرے کوئی