نذروں سے وہ بے نیاز نظریں
ہوں مدھوش
نشےسے پُر تر وہ شراب نظریں
عاشق بہک جائیں جس سے وہ جام نظریں
اُٹھاو تو ہو سحر
جُھکاو تو ہو شام
مثلِ جمال
حُسن کی وہ تصویر نظریں
دریا جس میں اُتر جائیں
ایسی ہی ہیں تمھاری نظریں
ہوں جائیں صیاد بھی قید
شکاری وہ غزال نظریں
حُسن ہے مصروف طواف
حسین وہ باکمال نظریں
ستارے ہوں محوِ گردش
آسماں جس کی چاند سے اُتارے نظریں
موسم مہک جائیں
عاشق بہک جائیں
عِطر و شراب نظریں
جائے گلشن میں وہ جب
کھل جائیں گل
رنگوں سے محمل وہ بہار نظریں
چل چھوڑ اے دل
تیرے بیاں سے باہر تیری دسترس سے بعید
تیرے لفظوں سے گرہیں
مثلِ دریا وہ نیل نظریں