تمہارے لئے ہیں مرے سارے خواب
مہکتے ہوئے سوچ کے یہ گلاب
اب آنکھوں میں اپنی چھپا کر تمہیں
میں پلکوں کا ڈالوں گی ان پر نقاب
ہوئی چاندنی اس کی مجھ پر محیط
میں اس کی زمیں ، وہ مِرا ماہتاب
بھلا کر مجھے سارے سود و زیاں
تمیں پیار کرنا ہے بس بے حساب
مجھے جس نے دی ہے نویدِ سحر
اسے کیا کہوں ، چاند یا آفتاب
بس اک پیاس ہے جو کہ گھٹتی نہیں
وہی ابرِ تازہ ، وہی ہے سراب
ہر اک سطر تیری کہانی صدفؔ
مری زندگی کا یہی ہے نصاب