تنہائیوں کی برف تھی بستر پہ جا بہ جا
شعلوں کا رقص رات بدن پر نہ ہو سکا
پرچھائیوں کے عارض و لب کون چومتا
لذت فروش جسم سے میں دور ہی رہا
میں نے ہی اپنے دل کے ورق پر اسے لکھا
جو حادثہ کسی سے رقم ہو نہیں سکا
ہر سمت کھنچ گئے تری یادوں کے سائبان
کل رات درد لوٹ گیا چیختا ہوا
یادوں نے اضطراب کی ریکھائیں کھینچ دیں
ورنہ مرے سکون کا کاغذ سفید تھا
چہروں سے اڑ چکے ہیں شناسائیوں کے عکس
اب دوستوں کی کھوج میں تو عمر مت گنوا
دل میں ستم کا زہر لبوں پر مے خلوص
یاران خوش کلام کا اب تجربہ ہوا
شاید اسے یقین کی انگلی نہ چھو سکے
اک شخص اپنے آپ سے برسوں نہیں ملا
حائل تھی راستے میں روایات کی خلیج
وہ دل کی بات اپنی زباں تک نہ لا سکا
میں چپ رہا تو قید کی میعاد بڑھ گئی
چیخا تو اور حلقۂ زنجیر کس گیا
پانی کے انتظار میں پھر ریت پھانکیے
اخترؔ یہ دن بھی دھوپ کی دلدل میں دھنس گیا