تو اگر آتا نہیں اپنے خیالوں کو بھی روک
Poet: اقبال By: اقبال, Gujranwalaتو اگر آتا نہیں اپنے خیالوں کو بھی روک
بس چکے ہیں جو تصور میں جمالوں کو بھی روک
یاد آتے بیتے لمحوں خوش خصالوں کی بھی روک
رات کی تنہائیوں میں آہوں نالوں کو بھی روک
رقص فرمانے لگا ہے بپھرے سانپوں کا ہجوم
سرخ چہرے پہ مچلتے کالے بالوں کو بھی روک
پہلے بھی چشماب کی جھیلوں میں اک سیلاب ہے
آسماں پر مد بھرے برفاب گالوں کو بھی روک
اشتیاق دید میں فانی ہے صحراؤں کی ریت
رہ نوردی میں ابھرتے غم کے چھالوں کو بھی روک
پھر بنائیں گے تجھے اغیار کا دریوزہ گر
ان ریا خو خوش نظر مسحور چالوں کو بھی روک
زندگی کے راستوں پر کرتے پھرتے ہیں شکار
نرگسی آنکھوں کے متوالے غزالوں کو بھی روک
سرکشی میں جرم و استبداد میں مشغول ہیں
دندناتے منچلوں کو ان رزالوں کو بھی روک
جو اڑاتے ہیں تمسخر دین کے آئین پر
آبروئے دین کی خاطر جیالوں کو بھی روک
اک نظر کا عمر بھر نہ دے سکے ہرگز جواب
امتحان عشق میں الجھے سوالوں کو بھی روک
عینؔ کرتا ہے پرستش ذات میں مستور تو
پتھروں کی بت پرستی کرنے والوں کو بھی روک
بس چکے ہیں جو تصور میں جمالوں کو بھی روک
یاد آتے بیتے لمحوں خوش خصالوں کی بھی روک
رات کی تنہائیوں میں آہوں نالوں کو بھی روک
رقص فرمانے لگا ہے بپھرے سانپوں کا ہجوم
سرخ چہرے پہ مچلتے کالے بالوں کو بھی روک
پہلے بھی چشماب کی جھیلوں میں اک سیلاب ہے
آسماں پر مد بھرے برفاب گالوں کو بھی روک
اشتیاق دید میں فانی ہے صحراؤں کی ریت
رہ نوردی میں ابھرتے غم کے چھالوں کو بھی روک
پھر بنائیں گے تجھے اغیار کا دریوزہ گر
ان ریا خو خوش نظر مسحور چالوں کو بھی روک
زندگی کے راستوں پر کرتے پھرتے ہیں شکار
نرگسی آنکھوں کے متوالے غزالوں کو بھی روک
سرکشی میں جرم و استبداد میں مشغول ہیں
دندناتے منچلوں کو ان رزالوں کو بھی روک
جو اڑاتے ہیں تمسخر دین کے آئین پر
آبروئے دین کی خاطر جیالوں کو بھی روک
اک نظر کا عمر بھر نہ دے سکے ہرگز جواب
امتحان عشق میں الجھے سوالوں کو بھی روک
عینؔ کرتا ہے پرستش ذات میں مستور تو
پتھروں کی بت پرستی کرنے والوں کو بھی روک






