تو اے گستاخ نبی! اب خاک سر پہ اڑائے گا
ہے جہنم تیرا ٹھکانہ' تو جلد ہی پہنچ جائے گا
ہزیمت مادر ہرگز نہ برداشت کریں گے
اس وجود پاک کی تو گرد بھی نہ پائے گا
خبث باطن مٹا کر تو اسوہء رسول دیکھ
اپنے امروز پہ تو خود لعنت بھجوائے گا
تجھ جیسے مردود کو زمیں ٹھکانہ نہ دے گی
آسماں تجھے او پر سے نیچے گرائے گا
تجھ سے بدلہ لینے کو مظاہر فطرت ہیں بے کل
آندھی تجھے اڑائے گی' سمندر بہا لے جائے گا
وہ نور مجسم ہیں ' پیکر خاک نہ سمجھ انہیں
اے ناداں! کیاکبھی تو یہ نکتہ جان پائے گا
آؤ بتاؤں' ان کا لعاب دہن بھی ہے شفا
مغرب اپنی فطرت علیل کا علاج پائے گا