تو میسر نہیں ہے، سردی ہے اور دسمبر کی غنڈہ گردی ہے ٹوٹ جائے اگر تو ہر انڈا کچھ سفیدی ہے اور زردی ہے ایک وردی ہے ماس بھی گویا ایک وردی کے پیچھے وردی ہے نجمؔ جھولی ہے آنکھ بھی گویا ہم نے پھیلائی اس نے بھر دی ہے