تمنا ، آس ، اُمید و خواہشات و جذبات
اے میرے خدا ! سب کچھ ہے ترے ہی ہاتھ
تو ہی حاکم ، تو ہی دانا ، تو ہی شہنشائے خلقت
میں کم ذات ، گناہگار آدم ، خدایا اعلیٰ تری ذات
پھولوں کی خوشبو سے لے کر ساگروں کی روانی تک
ترے حکم کے طابع سارے ، شمس و قمر دن اور رات
دل و دماغ کی باتیں ساری تو جانے آدم سے پہلے
جانے تو بس تو ہی جانے دل کے بھید دل کی بات
شہنشاؤں کی مغرور سلطنتیں پل بھر میں زمین دوز کر دے
گر خوش ہو جائے کسی بھکاری پہ پل میں بدلے تو حالات
اِک گدا بے چارہ نہال خدایا طالب ترے کرم کا
سلیمانی عقل کا کچھ حصہ بخش قید میں کر لوں پَریاں ، جنات