تو ہے اس میں کوئی شک نہیں
عقل محدود کو تجزیہ ذات کا حق نہیں
طالب ذات ہر شہ میں ہے بندگی
کیا گردش جہاں پہلا سبق نہیں
مخلوق مشاہدہ خالق میں کامل نہیں
جذبہ شوق تیری قسمت میں ساحل نہیں
تجھ کو پانا خود کو کھونے کے مترادف ہے
اس وسعت صحرا میں کہیں بادل نہیں
ماورائے عقل ہے تب ہی تو خدا ہے
کب کسے بخش دے رحمت کا رنگ ہی جدا ہے
الفاظ ختم اعداد ختم عقل حیراں ہے
تیرے حضور بندہ عاجز کھڑا ہے