توبہ کی نازشوں پہ ستم ڈھا کے پی گیا
“پی“! اس نے جب کہا تو میں گھبرا کے پی گیا
دل ہی تو ہے اٹھائے کہاں تک غم و الم
میں روز کے ملال سے اکتا کے پی گیا
تھیں لاکھ گرچہ محشر و مرقد کی الجھنیں
گتھی کو ضبط شوق کی سلجھا کے پی گیا
مے خانۂ بہار میں مدت کا تشنہ لب
ساقی خطا معاف! خطا کھا کے پی گیا
نیت نہیں خراب نہ عادی ہوں اے ندیم!
“آلام روزگار سے تنگ آ کے پی گیا“!
ساقی کے حسن دیدۂ میگوں کے سامنے
میں جلوۂ بہشت کو ٹھکرا کے پی گیا
اٹھا جو ابر دل کی امنگیں چمک اٹھیں
لہرائیں بجلیاں تو میں لہرا کے پی گیا
دل کچھ ثبوت حفظ شریعت نہ دے سکا
ساقی کے لطف خاص پہ اترا کے پی گیا!