تھانے میں کتنے لوگ کہ لاک اَپ نشیں رہے
کُچھ اُن میں با اثر تھے، کُچھ کمّی کمیں رہے
چور، ڈکیت، قاتل یا بَلوائی، اغوا کار
کتنے ہی “ماہرین“ کہ یاں کے مَکیں رہے
کتنوں کو ہم نے چھوڑا، سفارش کے زور پر
کتنے ہی تھے جو نوٹ سے “مُجرم“ نہیں رہے
لیڈر، عوام، اچھے، بُرے، معصوم، خطا کار
کس کس کا پُوچھتے ہو کہ اکثر یہیں رہے
کتنی ہی بار ہم نے سجایا ڈرائنگ رُوم
چھِتر ہمارے تھانے کے از حد حسیں رہے
کتنے ہی راز، راز رہے، کروا کے مُٹھی گرم
دیوار و دَر اِس تھانے کے سب کے امیں رہے
اِک بار مہماں بن کے گر پہنچا کوئی یہاں
خاطر نہ بھُولے عمر بھر، چاہے کہیں رہے
جانے کیوں شُرفا ڈرتے ہیں تھانے کے نام سے
تھانے تو سب کے واسطے خَندہ جبیں رہے
سرور تو بے وجہ ہی ہیں بد ظن پولیس سے
جب دیکھئے یہ صاحب ہم پہ نُکتہ چِیں رہے